Home  |  About Punjabics  |  Aims & Objectives  |  Photo Gallery  |  Opinion  |  Sindhi  |  Contact Us  |  Punjabic Forum  |  Gurmukhi

پاکستان ایک ٹوٹتا بکھرتا خواب کیوں؟

تحریر : نذیر کہوٹ


پاکستان میں سب کچھ بند ہے ۔پاکستان کس حال میں ہے ذرا دیکھئے تو:۔
فیکڑیاں بند،کارخانے بند،تجارت بند،سٹاک بند،بازار بند،مارکیٹیں بند ،تعلیمی ادارے بند، ترقی بند،سرمایہ کاری بند،درآمد برآمد بند، انصاف بند،پانی بند،بجلی بند،پیٹرول بندی، گیس بند، علاج بند، دوائیاں بند،تفریح بند،کاروبار بند،دکانیں بند سب کچھ بند اگر کچھ چلتا ہے تو صرف بم دھماکہ،قتل عام،کرپشن،لوٹ مار خود کش بمبار، اور ٹارگٹ کلنگ چلتا ہے ۔،علیحدگی کی تحریکیں،تعلیم و صحت کی سہولتوں کا فقدان ،غیر ملکی قرضوں پر ہمیشہ چلتی ریاست، خزانہ خالی مگر حاکموں کے ملکی اور غیر ملکی کھاتوں میں موجود اربوں کھربوں کا پاکستانی قوم کا لوٹا ہوا سرمایہ موجود،اپنے عوام کی جان،مال ،عزت آبرو کو بیچ بازار لٹنے کا تماشا دیکھنے والی بے حس ،بزدل ،ظالم ،قانون شکن ریاست، قانون شکن لوگ اور قانون شکن پولیس اور بے حس بیور کریسی ،کرپٹ ،جاہل اور جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل عوامی نمائندے اور نااہل ااور ناکارہ اور ناکام سیاسی جماعتیں اور ڈنگ ٹپائو کرپٹ اور نام نہاد جمہوری حکومتیں جو مظلوم، محروم، مجبور، بے بس، غریب اور دو وقت کی روٹی سے محروم عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے کو تیار نہیں ۔منافقت،ملاوٹ ،جھوٹ ،فراڈ ، دھوکے بازی اور ہر شعبہ زندگی میں چلتی دہشت گردی جو قومی پیشہ بن چکی ہے۔ برداشت،رواداری اور بھائی چارے کی روائت اور کلچر غائب ،کرپشن جو عربوں کھربوں لوٹ کر قومی سرمایہ ملک سے باہر منتقل کر رہی ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں،جعلی ڈگریوں والوں کو پھانسی ملنی چاہئے مگر کوئی پوچھتا نہیں۔نسلی،لسانی منافرتوںاور تضادات کی بھڑکتی آگ،صوبوں کے درمیاں دشمن ریاستوں کے سے رویئے ،غیر ملکی مداخلت اور ہماری سرحدوں پر دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت کی مسلح افواج کی موجودگی ،ہر دم حملے کےلئے تیار یہ امریکا اور مغرب کا گھر داماد بھارت ایک خطرناک ،خونخوار پڑوسی ۔ ملکی سلامتی خطرات میں گھری،حوصلہ ہارتی قوم ۔اپنی ہی سر زمین پر دہشت گردوں اوربھارتی اور امریکی تربیت یافتہ طالبان سے بر سر پیکار فوج ۔ نہ ختم کونے والے خود کش حملے اور نہتے ،معصوم اور بے گناہ شہریوں کی بلا روک ٹوک ٹارگٹ کلنگ ۔یہ ہے پاکستان کا عمومی سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی منطرنامہ۔یہ ایک ٹوٹتی،بکھرتی،منتشر اور ناکام ہوتی ہوئی ریاست کی بھیانک تصویر ہے ۔مگر کسی کو اس کی پرواہ نہیں۔

کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان میں میعشت، تجارت، زراعت، صنعت، فیکٹریوں، کارخانوں، مالیات،مواصلات، ریاستی وسائل، زرائع روزگار اور زرعی زمینوں کے بھاری قطعات پر چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے چند مخصوص نسلی ولسانی گروہوں، نوکر شاہی، جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں، چوہدریوں، پیروں، جرنیلوں اور مراعات یافتہ ملائوں کا قبضہ رہاہے۔

ذرائع ووسائل اور قومی زرائع پیداورا اور دولت پرقابض مٹھی بھر افراد اور خاندانوں پر مشتمل یہی ٹولہ اس ملک اور اس کے عوام پر نازل ہونے والے ہر عذاب اور مصیبت کا ذمہ دار او ر اس ملک میں ہر فساد کی جڑ ہے۔ سٹیٹس کو کا ذمہ دار اور سامراجی قوتوں کا الہ کار ہے۔معاشی اور سماجی ناہمواری ہر طرح کی نا انصافیاں اور روٹی ،کپڑے ،مکان ،تعلیم،صحت اور روزگار سے محروم،عزت،جان،مال آبروکی پامالی کے خوف ، غم اور دکھ میں مبتلا کر دی گئی پاکستانی قوم کی موت معاشی نا انصافی اور محرومی کے ہاتھوں واقع ہو چکی ہے ۔اب صرف اسے دفنایا جانا باقی ہے کہ ظلم،نا انصافی ،لوٹ مار،ریاستی و گروہی اور نسلی دہشت گردی نے اس قوم کی رگوں سے خون کاآخری قطرہ بھی نچوڑ لیا ہے ۔ ظلم ،جبر اور استحصال پر مبنی اس نظام سے سترہ کروڑ لوگوں کی آزادی کی کوئی امید نذر نہیں آتی ۔مگر پھر بھی سوچنے یا جبر کی آندھیوں میں امیدکا دیا جلاتے جلاتے میں کوئی معجزہ ہو جانے کا خواب د یکھنے میں کوئی برائی بھی تونہیں ۔ ایسے میں جب کہ ہمارا وطن دہشت گردی ،تباہی،بربادی ،انارکی اور نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے ۔اور دشمن اس کا نام نشان ہی مٹانے کے لئے بے تاب ہے تو کیا ہم سب بھیڑبکریاں بن کر خاموشی سے بیٹھ کر تماشا دیکھیں ۔میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں ۔ہم سب کو جو آزادی سے محبت کرتے ہیں اس ملک کی فکر ہے ۔

دنیا بہت بدل چکی ہے۔اور کراچی سے خیبر تک جاگیرداری اور سرداری کے خاتمے کے لئے عوام کو چند سیکنڈ کے اندر ایک ایس ایم ایس کے ذریعے سڑکوں پر لایا جا سکتا ہے۔ ظلم، استحصال، دہشت گردی اور جبرپر مبنی نظام الٹا جا سکتا ہے ۔ اور ہر چیز کا پہیہ جام کیا جا سکتا ہے ۔ آزمائش شرط ہے۔ مگر اس سے پہلے تنظیم شرط ہے۔یہ کیسی ریاست ہے اسے کون چلا رہا ہے۔جو اس ملک کے لوگوں سے لہو اور لاشوں کی کبھی نہ ختم ہونیوالی سوغات وصول رہا ہے ۔ ملک کو اس سنگین صورتحال اورعذابوں سے نکالنے کو نوٹس آخرکون لے گا۔ پاکستان کا جو حال آج سے ساٹھ سال پہلے تھا آج اس سے بھی بدتر ہے ۔عوام شدید نارضگی اور طیش کے عالم میں ہیں اور انتقام لینا چاہتے ہیں مگر اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں کہ انہیں کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہے ۔ مین سٹریم جماعتیں بھی ان کے ساتھ دھوکا کر رہی ہیں۔پوری قوم کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے ریاست روکنے پر تیار نہیں تو ہم کیوں خامو ش بیٹھیں۔

جو ظلم اور اندھیر نگری پاکستان میں مچی ہے وہ دنیا کی کسی بھی ریاست میں نہیں ہو رہی۔ بلوچستان میں بغاوت کی سی صورتحال، پاکستان کی بلکانائیزشن یعنی نئے صوبوں کے قیام کے دوران ملک میں خانہ جنگی کروا کر اسے ختم کرنے کی تیاریاں،ملک میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کے آگے اس سٹیبلشمنٹ اور حکومت کی رضا مندی ،ملک کو ہمیشہ قرضوں پر چلانے کی پالیسی ،ملک میں نسلی و لسانی تضادات کو حل کرنے کی بجائے انہیں ہوا دینے کی پالیسی ، صوبائی خود مختاری اورعلیحد گی کی تحریکیں ایسے مسائل ہیں جو اس سٹیبلشمنٹ اور اس حکومت کے قابو سے باہر ہو رہے ہیں ۔

پاکستان ناکام ریاست نہیں۔پاکستان کو ہمیشہ عدم استحکام سے دوچار رکھا گیا۔

اگر ہم پاکستان کی تاریخ کو بغور جائزہ لیں تو ہمیں ایک حقیقت سے بار بار واسطہ پڑتا ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کو ہمیشہ عدم استحکام کا شکار بنا کر رکھا جائے ۔پاکستان ناکام ریاست نہیں ہے۔ اس کو چلانے والے حاکم طبقات سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت اسے ناکامی سےدوچار کر رہے ہیں۔حاکم طبقات، سیاسی جماعتیں ، جرنیل،جاگیردار، ملا اور سٹیلشمنٹ سبھی ناکام ہو چکے ہیں۔مسئلہ سندھ نہیں ہے ۔مسئلہ بلوچستان نہیں ہے مسئلہ پاکستان پر مسلط عوام دشمن طبقات ہیں ۔جو قومی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ریاست نہ صرف عوام بلکہ خود ریاست کے خود دہشت گردی میں ملوث ہے۔ریاست کے اند ر ہر طرح کی دہشت گرد چھوٹی چھوٹی ریاستیں ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں۔سامراج نے پاکستان کو ہمیشہ عدم استحکام کا شکار بنا کر رکھا ہے۔ یہاں لیاقت علی خان ،ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کو بلا وجہ قتل نہیں کیا جاتا۔پاکستان ناکام ریاست نہیں ہے۔ سامراج اسے ناکام بنانے اور اس کے ٹکڑے کرنے پر تلا ہے ۔ پاکستان کو چھوڑ کردنیا بھر کی ریاستیں ویلفئیر سٹیٹ کی منزل کی طرف گامزن ہیں کیوں کہ وہ اپنا وجود اور اپنے عوام کی آزادی برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔اس لئے اپنے عوام کر ریلیف دے رہی ہیں .مگراور استحصالی طبقہ کسی بھی طرح عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے کو تیار نہیں۔جاگیرداروں اور استحصالی طبقات نے پاکستان کو ویلفیئر سٹیٹ کی بجائے نیشنل سیکورٹی سٹیٹ اور فیوڈل سٹیٹ بنادیا ہے۔

یہ بھی اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کی ایک ریٹائرڈ جرنیل نے براہ راست امریکا کا نام لے کر الزم لگا یا کہ بینظیر بھٹوکے قتل میں امریکا کا ہاتھ ہے۔ اور امریکیوں کو اس کی براہ راست تردید کرنا پڑا۔اگر ہماری جمہوری اور عوامی قیادت اسی طرح قتل ہوتی رہی اور پھانسی لگتی رہی تو پاکستان میں کبھی استحکا م نہیں آ سکتا۔پاکستا ن میں امریکا کا راستہ عوامی طاقت کے ستاھ روکنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ امریکا پاکستان کو غائب کردے گا۔اس ملک میں ہر وہ کام کیا جا رہا ہے جو اسے ہمشیہ غیر مستحکم رکھے۔اور اس جرم میں غیروں کے علاوہ اپنے بھی برابر کے شریک ہیں۔ورنہ امریکا نے ایران اور کیوبا کا کیا بگاڑ لیاہے۔

اصل سیکورٹی تھریٹ،خانہ جنگی اور کیا ہوتی ہے۔

پاکستان کو درپیش مسائل کے حل میں ناکامی ہی ملک کے لئے اصل سیکورٹی تھریٹ ہے۔ سماجی انصاف ، معاشی مساوات اور سیاسی آزادی عوام کا پیدائشی حق ہے جو غصب ہو چکا ہے ۔ ریاست اپنی رِٹ سمیت غائب یا ختم ہوچکی ہے ۔پاکستان میں ہر دوسرا شخص دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر ہے کیوں کہ اس کے ہاتھ میں قتل کا لا ئسینس ہے ۔پاکستان میں جب جہاں کوئی جس کو چاہتا ہے قتل کر ڈالتا ہے ۔کوئی روک ٹوک نہیں۔سترہ کروڑ کی آبا دی مٹھی بھر دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے نشانے پر ان کی یرغمالی۔ریاست خاموش تماشائی بلکہ دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کی معاون ۔جہاں بچے اغواء ہو جائیں اور کبھی نہ ملیں یا سیلاب میں بہہ جائیں۔ یا پھر ان کا بے گناہ باپ کسی دہشت گرد یا ٹارگٹ کلر کی گولیوں کا نشانہ بن جائے۔یا کسی خود کش بمبار کے حملے میں غائب ہو جائے ۔جہاں کسی کی جان و مال عزت آبرو محفوط نہ ہو۔جس ریاست کے باشندوں کی نسل اور زبان پہچان کر ان کی ٹارگٹ کلنک کی جاتی ہو ۔اور کوئی روکنے والا نہ ہو۔ تو پھرخانہ جنگی اور کیا ہوتی ہے۔سیکورٹی تھریٹ اور کیا ہوتی ہے۔

پنجاب کی تقسیم کیوں اور کس کے لئے

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کو توڑنا ہو تو کیا کیاجائے ۔میرا سادہ سا ایک سطری جواب ہوگا کہ پنجاب کو تقسیم کردو۔پاکستان خود ہی ختم ہو جا ئیگا۔ کیوں کہ پنجاب کی تقسیم خواہ لسانی ہو یا انتظامی کے نتیجے میں خانہ جنگی ہو گی جس کا انجام پاکستان ٹوٹنے پر ہوگا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پنجاب ،سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کو تقسیم کر کے نئے صوبے بنا دو مسئلہ حل ہو جائیگا۔ جاگیرداری کے خاتمے ،وسائل اور دولت کی تقسیم کی بات یہ بدنیت اور منافق پنجاب دشمن نہیں کرتے ۔ملک کی معاشی شہہ رگ پر قابض دو کروڑ کی آبادی کے شہر کراچی کا کیا کروگے۔ پنجاب کی تقسیم کے بعد پہلے اسے صوبہ اور بعد میں ملک سے علیحدگی سے اسے کون روک سکے گا۔سامراج کافی ذہین ہے۔ کھیل سب سمجھ میں آتا ہے۔

پنجاب کی تقسیم کی بات کرنے والا ان احمقوں کا ٹولہ ہے جو جاگتے میں خواب دیکھتا ہے۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ جب پنجاب یا سندھ کو لسانی یا انتظامی کسی بھی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جائیگی تو آگے سے ناقابل تصور اور شدید مزاحمت ہو گی،نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو جائیگی اور ملک غائب ہو جائیگا۔اصل مسئلہ معاشی ہے جو تما م تضادات اور ہر فساد کی جڑ ہے ۔جس کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا یا بوجوہ دینا نہیں چاہتا۔جب تک پاکستان کے ایک ایک شہر ی کو بلا تفریق معاشی حق اور انصاف نہیں ملے گا اس ملک کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ خواہ اس کے سو صوبے بنا لئے جائیں ۔نئے صوبے مانگنے والے معاشی انصاف، دولت اور زرائع پیداوار،جا گیرںچھین کر غریب کسانوں،ہاریوں،مزارعوں اور کھیت مزدوروں میں مفت تقسیم کرنے یا بانٹنے کی بات نہیں کرتے۔بلکہ منافقت اور پنجاب دشمنی میں اندھے ہو کرے دوسری جانب چل پڑے ہیں ۔ میرے نزدیک نئے صوبے مانگنے والے قوم اور ملک کے دوست نہیں ۔ بلکہ اس ملک کے اور عوام کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔ پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ کرنے والے سب پنجاب دشمن اور سامراجی گماشتے ہیں جو پنجاب کو توڑ کر پاکستان توڑنے کے سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے گماشتوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جاگیرداروں کو بچانے کے لئے نئے صوبے بنانے کا شور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اسی طبقے کا نیا ہتھیار ہے ۔اگر پاکستان کو باقی رکھنا ہے تو نئے صوبے بنانے کے خیال اور پنجاب کی تقسیم خواہ لسانی یا انتظامی ہو کو بھلا دیا جائے۔ورنہ پاکستان نہیں رہیگا۔

جیسا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں چوبیس زبانیں بولی جاتی ہیں اگر ہم نسلی ولسانی بنیادوں پر صوبے دینے لگیں صوبہ سرحد کے چوبیس صوبے بنانا ہوں گے ۔انتظامی بنیاد پر بھی صوبے جو کسی طرح بھی قومی زبانیں نہیں بن سکتی ہیں۔مزید صوبے ہمیں قبول نہیں۔مجھے ایسے پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں جو سندھ یا پنجاب کے ٹکڑے کر کے نئے صوبے بنانے کی کوشش کرے۔ کوئی مرے یا جیے ہمیں پنجاب کی تقسیم نسلی،لسانی یا انتظامی کسی بھی بنیادوں پر منطور نہیں۔صوبے بنانے سے ذیادہ اہم مسئلہ ملک میں جاگیرداری ختم کرنے کا ہے ۔کچھ لوگ یہ بات بھول رہے ہیں کہ پنجاب کی لسانی یا انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس ناپاک شیطانی عمل اور سامراجی منصوبے کی پنجابیوںطرف سے شدید مزاحمت ہوگی۔ نتیجہ کیا ہوگا بتانے کی ضرورت نہیں۔نوشتہ دیوار پڑھ لیا جائے۔ہاں اگر بلوچ آدھا بلوچستان پشتونوں کو دینا چاہتے ہیں تو پنجاب کو اعتراض نہیں اور اگر اے این پی اور اسفند یار ولی خان ہزارہ کو الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں تو شوق سے بنائیں۔مگر پنجاب کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھیں ورنہ ان کی آنکھیں نکال لی جائیں گی۔پنجاب کی تقسیم کوئی مرے یا جئے پنجابیوں کو منظور نہیں۔صدر زردار خیبر پختون خواہ،سندھ اور بلوچستان میں بھی جاکر سرائیکی میں تقریریں کریں ۔وہاں بھی کروڑوں سرائیکی رہتےہیں ۔ڈرف پنجاب کے نام نہاد سرائیکیوں سے اس قدر شدید محبت کیوں۔پنجابی سب دیکھ رہے اور کھیل سمجھتے ہیں۔

پنجاب کے عوام موجودہ صوبوں کے ٹکڑے کر کے نئے صوبوں کے قیام کے خواہ وہ لسانی بنیادوں پر ہوں یا انتظامی بنیادوں پر ہوں کے مخالف ہیں۔پنجاب سندھ یا کسے بھی صوبے کی تقسیم کی حمائت نہیں کرتا۔ نئے صوبے بنانے کا شور سامراجی ایجنڈا ہے جس کا مقصد پاکستان میں نسلی لسانی بنیادوں پر پاکستان میں خانہ جنگی کروا کر کراچی کو ملک سے الگ کرنااور پاکستان توڑنا ہے ۔ہم کسی بھی صوبے کو تقسیم نہیں چاہتے ۔پنجاب پنجابیوں کا ہے ،سندھ سندھیوں کا ہے ۔پنجابی یا سندھی پاکستان میں اس لئے شامل نہیں ہوئے تھے کہ ان سے سندھ یا پنجاب چھین کر انہیں غائب کر دیا جائے ۔کوئی مرے یا جیئے ہمیں پنجاب یا سندھ کی تقسیم منطور نہیں۔پاکستان کو ختم کرنے کے لئے آخری حربے کے طور پر بلکانائزیشن یعنی نسلی ولسانی خون ریزی کا سامراجی درندہ پاکستان کی سر زمین پر اب چھوڑا گیا۔

غیرپنجابی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پنجاب کی سا لمیت کا سب سے بڑا دشمن

پاکستان کے غیر پنجابی اور پنجاب دشمن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آج کل پنجاب کی تقسیم کو اپنا موضوع بنا رکھا ہے ۔میں نے کہیں پڑھا کہ پنجاب د شمنی میں اندھے ہو چکے کسی پنجاب دشمن، گمراہ، بھارتی ایجنٹ اور سامراجی گماشتے دانشور نے لکھا کہ کسی اخبار میں’’پنجاب کی تقسیم کیوں نہیں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔:تو اس کا جواب یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم اس لئے منظور نہیں کہ پنجاب ایک بار پاکستان کی خاطرتقسیم ہو چکا اب دوبارہ پنجاب کو نسلی یا انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تو پنجابی پاکستان کے پرخچے اڑا دیں گے۔جو پنجاب میں خوش نہیں ہیں وہ پنجاب چھوڑ دیں ۔پنجاب پنجابیوں کا ہے۔ان کی دھرتی ماں ہے۔مسائل کے حل کے لئے کوئی اور راسہ تلاش کرو۔غیر مقامی اور غیر پنجابی پنجاب کی دھرتی پر قبضے کے دعوے بند کریں۔وہ قبضہ گیر ہیں۔

پاکستان کا ٖ غیر پنجابی اور پنجاب دشمن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پنجاب کی لسانی یا انتظامی تقسیم کے حق میں پروپگینڈے کے ذریعے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں خانہ جنگی کروا،نسلی و لسانی تعصبات کو ہوا دے کر یہاں خانہ جنگی کی راہ ہموار کر نے اور ملک توڑنے کے سامراجی منصوبے میں معاون کا کردار ادا کر رہا ہے۔پنجاب کی سا لمیت کو نقصان پہچانے کے عمل میں مصروف اس غیر پنجابی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کردار پر پنجاب میں اب شکوک شبہات کا اظہار اب بر سرعام ہونے لگا ہے اور پنجاب میں اس کی موجودگی اور وجود پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔کیوں کہ یہ پنجاب کی سا لمیت سے کھیل کررہا ہے۔پنجابی یہ کھیل اب سمجھ گئے ہیں کہ سامراجی طاقت کے لئے پنجاب کو توڑے بغیر پاکستان کو ختم کرنا اور کراچی کو الگ ملک بنانا ممکن نہیں۔پنجاب میں غیر پنجابی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کردار کو اسی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔کیوں کہ پنجاب کی تقسیم کی آڑ میں یہ نہ صرف پنجاب کی سا لمیت بلکہ ملکی سلامتی سے بھی کھیل رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے مسئلے کا حل جاگیردار اور جاگیرداری کو ختم کرنے میں ہے پنجاب کو تقسیم کرنے میں نہیں۔ کسی بھی غیر پنجابی،غیر مقامی نسلی و لسانی گروہ کو پنجاب کی دھرتی پر قبضہ کرنے یا اسے اس کا کوئی ٹکڑا ہتھیانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔پنجاب کی لسانی یا انتظامی تقسیم جو بھی ہے کہ شدید مزاحمت ہوگی۔نتیجے کی پرواہ نہیں۔ ایسا پاکستان نہیں چاہیئے پنجابیوں کو جو پنجاب کو تقسیم کرنے کی شیطانی کوشش کرے۔

سندھی،پنجابی،پشتو اور بلوچی قومی زبانیں ہیں

پاکستان میں چارصوبے ہیں۔اور چار ہی اکثریتی قومی زبانیں ہیں۔چاروں پاکستانی اکثریتی زبانوں سندھی ،پنجابی ،پشتو اور بلوچی کو پاکستان کی قومی زبانیں قرار دیا جائے۔اگر کوئی اور مادری زبانیں ہیں تو وہ صوبوں کے اندر موجود اقلیتی نسلی ولسانی گروہوں کی زبانیں ہیں۔جو قصباتی زبانیں ہیں۔ جو صوبوں کا اندرونی معاملہ ہیں۔پاکستان میں اردو کے ساتھ ساتھ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی زبانوں کو قومی زبانیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ سندھی،پشتو ،بلوچی اور پنجابی میں تخلیق ہونے والا ادب گلوبل ولیج میں اب علاقائی یا صوبائی ادب نہیں رہا۔اب یہ پاکستان کا قومی ادب اور عالمگیر ادب بن چکا ہے ۔کہ اب یہ انگریزی کی طرح ایک Click کے ذریعے ساری دنیا کی دسترس اور پہنچ میں آچکا۔سندھی، بلوچی،پشتو اورپنجابی کو قومی زبانیں تسلیم کیا جائے۔یہ ان کا حق ہے۔

یہ آمر کیوں آتے ہیں۔ انہیں کون بھیجتا ہے ۔ان آمروں نے ملک اور قوم کے ساتھ کیاکیا۔

قیام پاکستان سے آج تک اس ریاست کو کیا بنا دیا گیا ہے۔کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان عوام کے لئے نہیں جاگیرداروں ،سردارں،وڈیروں، برائون صاحبان،ملائوں طالبان،ایسٹ انڈیا کمپنی کے پروردہ،سامراجی گماشتوں اور دہشت گردوں کے لئے بنایا گیا ہے ۔ باقی ساری قوم ان کی غلام اور پاکستان انکی کالونی ہے ۔یہ ریاست اگر آزاد ہے تو پھر سامراجی اشاروں پر کیوں ناچتی ہے ۔یہ آمر راتوں رات کہاںسے آ جاتے ہیں ۔ان کو کون نازل فرماتا ہے۔ اور ان آمروں نے ملک کو کیا دیا۔ پہلے آمر کے دور میں ملک سے جمہوریت کا خاتمہ کر کے ون یونٹ اور ملک توڑنے کی بنیاد رکھنے اور ملک پر طویل آمریت کے نتیجے میں شہید مینار تعمیر کروایا گیا۔پنجاب کے دو دریا بیچ ڈالے ۔ دوسرے کے دور میں ملک ہی توڑ دیا گیا۔ تیسرے کے دور میں ملک میں ہیروئن اور کلا شنکوف کلچر لا کرااور ایک منتخب سندھی وزیر اعظم کو پھانسی پرلٹکا یا گیا،سندھ میں نسلی و لسانی فسادات کرائے گے اور کراچی میں ہر زبان اور نسل سے تعلق رکھنے والے بے گناہوں کا خون بے دریغ بہایا گیا۔اور چوتھے آ ّمر کے دور میں ایک منتخب پنجابی وزیر اعظم کو ہتھ کڑی لگائی کر ہوائی جہا ز کی سیٹ سے باندھ کر اسلام آباد سے کراچی بھیجا گیا، اسے پھانسی لگانے کی کوشش بھی کی گئی ناکام ہوئی تو پھرملک بدر کیاگیا۔ اسی آمر کے دورمیں دو بار وزیر اعظم منتحب ہو نیوالی سندھی بے نظیر بھٹو کوجو تیسری بار وزیر اعظم بننے جا رہی تھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پنجاب میں کس کے اشارے پر قتل کیا گیا۔اسی آمر کے دور میں پاکستان پر امریکا کو مسلط کیا گیا،افغانستان پر امریکا کا قبضہ کروایا گیا،ا ور اکبر بگٹی کا قتل کروا کر بلوچستان میں علیحدگی اور بغاوت کی بنیادرکھی گئی ۔اور اسی آمر کے دور میں را کو بلوچستان میں پنجابیوں کو قتل کرنے کا لائیسینس دیا گیا ،بلوچوں کو علیحدگی کی راہ پر ڈالا گیا ۔

پاکستان کو توڑنے اور برباد کرنے کے لئے اپنے سامراجی آقائوں کا ایجنڈہ لے کر ان کے اشارے پر ان آمروں نے بڑے گھنائونے کھیل کھیلے ہیں ۔گویا ہر آمر پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اپنے سامراجی آقائو ں کا ایجنڈہ ہاتھ میں لے کر ان کے آشیر واد سے کرسی اقتدار پر قابض ہوا۔ اور ملک کو پہلے سے ذیادہ نقصان پہنچا کر ہی ہٹا۔ تمام آمروں کے دور میں پنجاب اور پنجابی زبان کا استحصال کیا گیا۔ فوج کے خلاف ان آمروں کے نافذ کردہ مارشل لائوں کے نتیجے میں پنجاب کے خلاف نفرتیں اور شکایات پیدا ہوئیں جنہوں نے ملکی سا لمیت کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا۔ پھرہر آمر کو بھی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے بعد ایک حقیر مچھر کی طرح مار ڈالا گیا یا ملک بدر کر دیاگیا۔امریکہ پاکستان میں جمہوریت کا راستہ روکنے کے جرم میں برابر کا شریک ہے۔کبھی ایوب تو کبھی یحیی کبھی ضیاء تو کبھی مشرف جیسے بونے اور تیزابی ذہنیت کے حامل آمروں کو اس ملک اور اس کے عوام پر مسلط کر کے یہاں جمہورت اور ترقی کی راہ میں ر وڑے اٹکائے جاتے ہیں یہ آمر اور سامراجی گماشتے امریکی اشارے پر پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹتے ہیں۔

جیسا کہ نوم چومسکی نے اب تصدیق کر دی کہ امریکانے پاکستان کے طاقت وروں ایوب خان، یحی خان ،ضیا ء الحق اور مشرف کو خریدا۔ تو اب ہم پاکستانیوں کو ان آمروںکو وطن فروش ، غدار اور سامراجی گماشتے کہنے کا سرٹیفکیٹ بھی خود امریکا نے ہی دے دیا ہے۔امریکا جمہوریت کو پاکستان میں آنے سے روکنے کے لئے ہمارے جرنیل خریدتا ہے۔ کیا پاکستان کی فوج کبھی کوئی ایسے جرنیل بھی آئیں گے جو امریکا کے ہاتھ نہیں بکیں گے ۔ اور اپنے عوام اور اپنی ہی دھرتی پر فوج کشی نہیں کریں گے اور جمہوری عمل کو چلنے دیں گے۔اگر امریکا کو پاکستانی جرنیل بہت پسند ہیں تو ہماری اجازت ہے انہیں امریکا لے جائے اور وہاں ان سے مارشل لا لگوائے۔ہماری جان چھوڑے۔

سیاستدان، جاگیردار اور سردار،ملا اور سٹیبلشمنٹ سامراجی گماشتے

اس سامراجی گماشتہ سٹیبلمنٹ نے پاکستان کو امریکا کے آگے باندھ کر رکھ دیا ہے۔سترہ کروڑ کی غیرت مند،آزادی پسند اور جمہویت پسند قوم کو آمریت کے زہریلے ٹیکے لگا لگا کر اس پر ترقی اور خوشحالی ،امن اور انصاف پر جانے والے تمام راستے بند کرڈالے ہیں۔اور اسے آپس میں لڑدا دیا ہے ۔پاکستان دنیا کا واحد ا اسلامی ملک ہے جس کی نیو کلیئر پاوراورزبردست سٹرٹیجک لوکیشن امریکا کے حلق میں مچھلی کا کانٹا بنی ہوئی ہے اور سامراجی طاقتیں اسے توڑنے کے درپے ہے۔ اسی لئے پاکستان میں نئے صوبوں کے مطالبے ،جاگیرداروں کو بچانے ، پاکستان کی بلکانائزیشن ،خانہ جنگی اور انارکی پھیلا کر پاکستان توڑنے کا سامراجی ایجنڈا ہر وقت روبہ عمل رہتا ہے صوبے نہیں جاگیریں تقسیم کرو۔

پاکستان ایک بڑا پوٹینشل اور زبردست امکانات والا طاقتور ملک ہے ۔ مگر سامراج کی کاسہ لیس پاکستانی سٹیبلمنٹ اسے کبھی ترقی نہیں کرنے دے گی یہ ہمیشہ جموریت کے خلاف سامراجی اشارے پر سازشیں کرتی رہے گی۔کبھی پاکستان کے دو ٹکڑے کرے گی۔کبھی ذوالفقار علی بھٹو کو پھنسی چڑھائیگی،کبھی بینظیر کو قتل کروائیگی۔کیوں کہ ریاست تبدیلی کی دشمن ہے اور عوام دشمن حاکم طبقات کا آپسی گٹھ جوڑجوجاگیرداروں،سرداروں،وڈیروں،ملائوں،سرمایہ داروں، دہشت گردوں اور سامراجی گماشتوں پر مشتمل ہے سٹیٹس کو اور سامراجی مفادات کا محافط ہے ۔

نیشنل سیکورٹی سٹیٹ یا ویلفئیر سٹیٹ۔فیوڈ ل سٹیٹ یا ورکرز سٹیٹ

پاکستان کو چھوڑ کردنیا بھر کی ریاستیں ویلفئیر سٹیٹ کی منزل کی طرف گامزن ہیں کیوں کہ وہ اپنا وجود اور اپنے عوام کی آزادی برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔اس لئے اپنے عوام کر ریلیف دے رہی ہیں اور ان کی دکھوں ،مصیبتوں کو کم کر کے بتدریج ختم کرنے کے فارمولے پر انتہائی سنجیدگی سے عمل پیرا ہیں۔مگر استحصالی طبقہ کسی بھی طرح پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار چھوڑنے ،عوام کو ریلیف دینے اور اقتدار اعلی عوام کو منتقل کرنے کو تیار نہیں ۔بالادست اور استحصالی طبقات نے پاکستان کو ویلفیئر سٹیٹ کی بجائے نیشنل سیکورٹی سٹیٹ اور فیوڈل سٹیٹ بنادیا ہے ۔پاکستان کو اگر باقی رہنا ہے تو ہمیں اس کو فیوڈل سٹیٹ کی بجائے ورکرز سٹیٹ میں بدلنا ہوگا۔نیشنل سیکورٹی سٹیٹ کی بجائے اسے ویلفیئر سٹیٹ بنانا ہوگا۔

پاکستان ٹوٹنے والا ہے یا پھر خونی انقلاب آوے ہی آوے۔اب توبہ کا اور بھاگنے را ستہ بند ہو چکاپاکستان کے سر پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے ایک خونی تبدیلی کا عوامی بھوت۔اس بھوت سے چھٹکارا پانے کے لئے اب حکمران طبقات اور سامراجی گماشتوں نے نئے صوبوں کا شوشہ چھوڑا ہے۔اس ملک میں پرانے استحصالی طبقات کی موجودگی کےساتھ ساتھ نئے استحصالی طبقے اور جبر کی نئی نئی صورتوںنے جدوجہد کی نئی نئی شکلیں پیدا کردہ ہیں۔پاکستان میں آج اس وقت ہو کیا رہا ہے جو دنیا کے کسے ملک میں نہیں ہو رہا۔

بدنصیب پاکستان پر لاشوں کی برساتوں کا موسم ہے،آسمان سے لاشیں برستی ہیں۔زمین لاشیں اگلتی ہے،فضا میں لاشیں اڑتی ہیں۔ کھمبوں اور درختوں پر لاشیں لٹکتی ہیں۔ سڑکوں پر لاشیں گرتی ہیں ،دن دہاڑے بیچ بازار لاشیں گرائی اور پھینکی جاتی ہیں۔مگر کوئی روکنے والا نہیں۔ آسمان سے خوں برستا ہے ، زمین خون اگلتی ہے، فضا لہو روتی ہے، لاشیں ہیں،قبریں ہیں، ماتم ہے، پاکستان کی مائیں اپنے بیٹوں کی لاشیں دیکھنے سے پہلے اپنی موت کی دعائیں مانگنے لگ پڑی ہیں ۔یو ں لگتا ہے جیسے پاکستان ایک ملک نہیں کوئی قبرستان ہے۔اور ہر گلی کے موڑ پر کوئی اجمل قصاب اور کوئی خود کش بمبار یا کوئی بیت اللہ محسود گھات لگائے بیٹھا ہے۔بارود کی بو نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔سکولوں میں بچے نہیں آسکتے کہ وہاں کفن بھیجے جاتے ہیں۔جہاں لاشوں کو کندھا دینے والوں اور نمازیوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ آبادیاں برباد اور قبرستان آباد۔

معروضی حالات میں صرف غالبا سوشلسٹ انقلاب ہی پاکستان کے تمام اندرونی مسائل، تنازعات اور بحرانوں کا حل ہے۔اور یہ کام صرف عوام دوست اور جمہوریت پسند قوتیں متحد اورمنظم ہو کرسوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کر سکتی ہے۔باقی سب اس ملک میں ناکام ہو چکے ۔ سچ ہے کہ جو ظلم اور اندھیر نگری پاکستان میں مچی ہے وہ دنیا کی کسی بھی ریاست میں نہیں ہو رہی۔اگر یہ صورتحال بدلتی نہیں ہے تو دو امکانات واضح طور پر دکھائے دے رہے ہیں۔پہلا یہ کہ پاکستان ٹوٹنے والا ہے اور سترہ کروڑ لوگ بھارت کی غلامی میں جانے والے ہیں۔ دوسرا امکان خونی ا نقلاب کا ہے ۔ جس کے واضح اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ جاگیردار، ملا، سردار کے جانے کا وقت ہوچکا۔پاکستان میںانقلاب کے لئے زمین مکمل طور پر تیار ہو چکی ہے۔سروں کی فصلیں کٹنے کے لئے تیار ہو چکی ہے اور یہ روز روز اگتی بھی نہیں۔ یہ اب کاٹی جائی گی ۔ عوام شدید ناراضگی اور طیش کے عالم میں ہیں اور انتقام لینا چاہتے ہیںمگر اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں کہ انہیں کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہے ۔ مین سٹریم جماعتیں بھی ان کے ساتھ دھوکا کر رہی ہیں۔ کیوں کہ ان پر جاگیردار مسلط ہیں۔

ضرورت ہے اس وقت کہ عوام دوست اور جمہوریت پسند قوتیں متحد ہو کر آگے آئیں ،سر پر کفن باندھیں اور عوام کی قیادت کا قومی فریضہ پورا کریں ورنہ پھر فوج آ جائیگی یا طالبان آ جائیں گے یا بھارت آ جائیگا یا امریکا آ جائیگا۔پاکستان ٹوٹے گا تو کوئی بھی صوبہ الگ ملک بننے کا اہل یا اس کے قابل نہیں ہوگا۔صرف بھارت یا امریکا کے زیر قبضہ علاقہ ہوگا۔جہاں کوئی کرزئی خلیفہ وقت ہوگا۔اور نسلی ولسانی قتل عام اور خانہ جنگی مسلسل چلے گی ۔سامراجی منصوبہ یہی ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔آزادی کا خواب دیکھنے والے اپنی خوش فہمیاں دور کر لیں۔

دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہے۔ اس وقت سوشلزم اور مارکسزم کی قوتیں ساری دنیا میں از سر نو منظم ہو رہی ہیں اور زور پکڑ رہی ہیں۔پاکستان خطرنک صورتحال میں گھرا اپنی بقا کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے ۔یہ قوم اپنے نجات دہندہ کے انتظار میں ہے ۔ کہ دنیا بہت بدل چکی ہے۔کامیابی کے امکانات ایکسو ایک فیصد ہیں،سب کچھ پانے کے لئے ہے۔ کھونے کو کچھ نہیں۔کہ قوم موجودہ سیاسی خدائوں سے شدید نفرت کرنے لگ پڑی ہے۔ناراض ہے۔ مظلوم عوام کے ہاتھ میں انقلاب کا کلہاڑا دے کر اس ظلم اور جبر پر مشتمل شیطانی نظام کی جڑیں کاٹی جا سکتی ہیں ۔ملک کے اقتدار اعلی پر قابض عوام دشمن حکمران طبقات کا اتحاد جو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر اس ملک میں ہر تبدیلی کی راہ روکے کھڑا ہے ۔کہ تبدیلی میں اس کی موت اور شکست اور مظلوم عوام کی زندگی اور فتح ہے ۔اس کے ساتھ لڑ جانے کا وقت آ پہنچا ہے ۔سٹیبلشمنٹ اب بجائے خود پاکستان کے لئے سیکورٹی رسک بن چکی ہے۔سیکورٹی رسک اس لئے کہ اس کی پالیسیاں قومی اور ملکی مفاد سے متصادم ہیں۔

جاگیردار اور سردار،جاگیرداری،ملا،طالبان،ٹارگٹ کلنگز،نسلی ولسانی تعصابات کا بڑھاوا، بلوچستان، سائوتھ وزیرستان ، کراچی چند ایک مثالیں ہیں ایک چھوٹی سی مثال اور بھی :سٹیبلمنٹ پنجابی زبان کو پنجاب کی تعلیمی،دفتری،عدالتی اور سرکاری زبان بنانے سے انکاری ہے۔ سامراجی ایجنڈے کے تحت اس نے پنجاب کی سا لمیت خطرے میں ڈال دی ہے ۔اور یہ پنجاب کو ٹکڑے کر کے پہلے یہاں ایک صوبہ بنا کر پھر اسی بنیاد پر سندھ کی تقسیم کا جواز بنا کر کراچی کو الگ ملک بنا کر پاکستان کو توڑنا چاہتی ہے۔ہزارہ صوبہ ٹریلر ہے سامراجی ایجنڈے کا۔ بلوچستان میں بغاوت کی سی صورتحال، پاکستان کی بلکانئزیشن اور جاگیرداری اور سرداری بچانے کے لئے نئے صوبوں کے قیام کے دوران ملک میں خانہ جنگی کروا کر اسے ختم کرنے کی تیاریاں، ملک میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کے آگے سٹیبلشمنٹ اور ہر حکومت کی رضا مندی ، فوج کو قبائلی علاقوں میں الجھا دینے کی سازش اور ملک میں نسلی و لسانی تضادات کو حل کرنے کی بجائے ہوا دینا نسلی و لسانی تضادات کی آگ ،علیحد گی کی تحریکیں ،د ہشت گردی ایسے مسائل ہیں جو اس حکومت اور سٹیبلشمنٹ کے قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ان مسائل کے حل میں ناکامی ہی ملک کے لئے اصل سیکورٹی تھریٹ ہے۔سو صورتیں واضح ہو چکیں۔پاکستان ٹوٹنے والا ہے یا پھر خونی انقلاب آیا چہتا ہے۔باقی سارے آپشن ختم ہو چکے۔خونی انقلاب بہت آپشن ہے،پاکستان کو ختم نہیںہونا چاہئے۔جب سب کو انصاف ملے گا تو کوئی کیوں پاکستان سے الگ ہوگا۔انصاف کے حصول کےلئے خونی انقلاب ضروری ہے۔

سٹیٹس کو،ایڈھاک ازم اور ڈنگ ٹپائو پاکستان کا مقدر کیوں۔مارو انہیں

قرضوں اور عطیات کے ساتھ کوئی ریاست ہمیشہ نہیں چل سکتی۔ ۔ملک کا ماضی دیکھ کر اس کے مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ سٹیلشمنٹ اور جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں اس ملک کو ہمیشہ اسی طرح چلانا چاہتی ہے ۔ ان سب کا ماضی کا کردار دیکھ لیجئے۔ایڈھاک ازم یعنی ڈنگ ٹپائو،لوٹ مار ان کی پالیسی۔ملک اور قوم ان کا مسئلہ نہیں۔ ریاست کو چلانے اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے اب ناکام ہوچکے ۔

بنیادی مسئلہ دولت اور وسائل کی مساوی تقسیم اور سماجی انصاف فراہم کرنے کا ہے ۔صوبوں کو اپنے وسائل پر مکمل اختیار دینے اور مکمل صوبائی خود مختاری دینے کی ضرورت ہے۔ملک کو نیشنل سیکورٹی سٹیٹ کی بجائے ویلفئیر سٹیٹ کے درجے پر واپس لایا جائے۔عوام سماجی انصاف اور معاشی آزادی کا خواب دیکھتے ہیں۔اور خواب دیکھنا کوئی جرم نہیں ہے ۔ سٹیٹس کو،ایڈھاک ازم اور ڈنگ ٹپائو پاکستان کا مقدر نہیں ۔مارو انہیں جو اس کے محافظ ہیں اور اصل دشمن بھی یہی ہیں۔

عوام دوست ،روشن خیال اور جمہوریت پسند قوتیں آگے بڑھیں

عوام دوست ،روشن خیال اور جمہوریت پسند قوتوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ادیبوں اور دانشوروں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔بحیثیت ایک ادیب میں پالٹرز کی اس بات سے متفق ہوں کہ ’’ ہمیشہ مراعات یافتہ طبقوں کی مخالفت کرو،اور غریبوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئو،عوام کی بہبود کے لئے اپنے آپ کو وقف کرو اور برائی پر حملہ کرنے سے نہ ڈرو‘‘۔

وم کو دنیا بھر میں ذلیل اور رسوا کرنے والے رجعت پسندوں اور سامراجی گماشتوں کو عبرت کا نشان بنانے کا وقت آ پہنچا۔ادیب ،دانشور ،روش خیال ،جمہویرت پسند اور عوام دوست قوتیں آگے بڑھیں۔ پاکستانی معاشرے میں موجود رجعت پسندوں،سرداروں ،وڈیروں، جاگیردارنہ ذہنیت اور دہشت گردوں کی زبان ایک ہے وہ اردو،سندھی ،پنجابی پشتو اور بلوچی نہیں بولتے وہ نفرت ،استحصال،سازش اور دہشت گردی کی زبان بولتے ہیں خواہ قلم سے بولیں ، بندوق کی نالی سے یا ریاستی طاقت سے بولیں۔ یا پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے ذریعے بولیں ۔جو اس قوم سے قربانیاں طلب کر رہے ہیں اور خود غیر ملکی بینکوں میں ساٹھ ارب ڈالر جمع کر کے بیٹھے ہیں ان کا گریبان پکڑ کر ان سے اس سوال کا جواب مانگنے کی ضرورت ہے کہ آپ کی کریڈیبلٹی کیا ہے،آپ کا قومی کردار کیا ہے۔انسان اپنے قول سے نہیں فعل سے پہچانا چا جاتا ہے۔آپ جائیں اور جانے سے پہلے قوم کی لوٹی ہوئی پائی پائی کا حساب دیں۔ورنہ سزا بھگتیں۔

پاکستان ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کا وطن

کیوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک طرف توآدھی پاکستانی قوم نے ٹارگٹ کلنگ کا پیشہ اپنا لیا ہے تو باقی کی آدھی قوم کالے پانی یا بلیک واٹر کی دہشت گردی کا شکار ہو چکی ہے۔دہشت گردی اگر ہمارے ملک میں باہر والے ہی کر رہے ہیں تو ہم بھی کم نہیں۔اپنے ہم وطنوں کی لاشیں گرانے میں ہم ان سے بھی آگے ہیں۔یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے مگر اشارے یہی ہیں کہ سترہ کروڑ لوگوں کا غلامی کی طرف سفر شروع ہو چکا ہے ۔آج پاکستان میں ہر طرح کی دہشت گردی اب ایک مذہب بن چکی ہے۔ اپنے حقوق کے نام پر ہر طرح کی دہشت گردی ہوتی ہے۔آئین اور قانون کے نام پر بھی دہشت گردی ہوتی ہے۔ریاست حقوق غصب کرنے کے لئے اپنے ہی عوام کے خلاف دہشت گردی کے نت نئے ہتھ کنڈے اختیار کرتی ہے۔ جاگیردار، سردار، چوہدری، وڈیرے، خان، سب عوام کے خلاف ریاستی طاقت کے بل بوتے اور قانون شکنی کی اہلیت کی بنیاد پر ہر طرح کی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔زندگی کے ہر شعبے میں دہشت گردی جاری و ساری ہے ۔محض اس لئے کہ اس ملک میں دہشت گردی کو لگام دینے اور مجرموں کا ہاتھ روکنے والے قانوں کی عملداری کو قتل کیا جا چکا ہے ۔ اور قانون خود دہشت گر رد بن کر ہر طرح کی دہشت گردی کا محافظ بن چکا اس میں میں ملوث ہو چکا ہے ۔ ہر شعبہ زندگی پر دہشت گردی مسلط ہو چکی۔پاکستان دنیا کی سب سے بڑی قانون شکن ریاست بن چکا۔کہ قانون یہاں طاقتور وں،دولت مندوں،نودولتیوں، اور حاکم طبقات کے آگے بکتااور بازاری بن کرننگا ناچتا ہے۔یہ ایک انتہائی خوفناک صورتحال ہے

ہر پاکستانی پر محمد احمد خان اور دہشت گرد ہونے کا لیبل لگا کر اسے گولی ماردو

دانشوروں اور ادیبوں کا ایک قومی کنونشن بلا کردہشت گردی کی کوئی ایسی متفقہ تعریف ضرور وضع کرنے کی ضرورت ہے جوساری دنیا کو قابل قبول ہومثلا جو کچھ دنیا میں اس وقت پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر ہو رہا ہے۔اور جس طرح دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانیوں کو دہشت گردی کا لیبل لگا کر تضحیک و تذلیل اور ہر طرح کی نفرت ،تشدد،دہشت گردی ا ور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ اب ہر غیرت مند پاکستانی کی برداشت سے باہر ہوچکا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ’’ بحثیت پاکستانی ہر پاکستانی کو اپنا اصلی نام بدل کر محمد احمد خان رکھ لینا چاہئے ۔ اپنی قومیت پاکستانی کی بجائے دہشت گر د لکھنی چاہئے اور مذہب کے خانے میں اسلام کی بجائے دہشت گرد ی لکھنا چاہئے ۔ پیشے کے خانے میں خود کش بمبار ، ،کاروبار کے خانے میں ٹیررازم امپو رٹ ایکسپورٹ اور ذات کے خانے میں طالبان اور والد کے نام کی جگہ امریکہ کا نام لکھ لینا چاہئے عارضی پتہ سائوتھ وزیرستان ا ورمستقل پتا گوانتاناموبے لکھ لینا چاہئے۔

اس طرح امریکا اور مغرب کو سترہ کروڑ پاکستانیوں کو گرفتار کر کے گوانٹاناموبے پہنچانے اور پاکستان کی آبادی سے خالی ہو جانوا لی زمین اپنے گھر داماد بھارت کے حوالے کرنے میں میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔اور کراچی ،گوادر اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار سب بغیر کسے مزاحمت کے اس کے قبضے میں آ جائیں گے اور ہم پاکستانی بھی گوانتاناموبے میں ایک نئی زندگی کی شروعات سے اپنی زندگیوں کی آخری سانس سکھ ،سکون اور چین سے لے سکیں گے۔کیوں کہ وہاں سے فیڈل کاسترو کا کیوبا بھی ہمیں قریب پڑےگا۔ اور پابلو نرودا کا ڈیرہ بھی ذیادہ دور نہیں ہوگا۔اس طرح پاکستان کی نام نہاد دہشت گردی کے جواب میں امریکہ کی مجبورََ چلتی جوا بی دہشت گردی سے بھی اس دنیا کو نجات مل جائیگی۔ ‘‘،دوستو امریکا تو یہی چاہتا ہے کہ ہر پاکستانی پر محمد احمد خان اور دہشت گرد ہونے کا لیبل لگا کر اسے گولی مار دے۔کوئی بتائے کہ اب پاکستانی کیا کریں کہاں جائیں؟

بھاگ امریکا بھاگ

مجھے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ روئے زمین پر سب سے ذیادہ اگر امریکاکے خلاف کہیں نفرت موجود ہے تو وہ پاکستانی قوم میں موجود ہے۔ کہ امریکا پاکستان میں جمہوریت کے وجود کا دنیا میں سب سے بڑا دشمن ہے ۔اور یہاں بار بار آمریت صرف امریکی شارے پر ہی آتی ہے تا کہ اس ملک میں کبھی جمہوریت،ترقی،امن ،خوشحالی اور استحکام نہ آ سکے ۔اور اسے کسی طرح ختم کیا جا سکے۔۔مشرقی پاکستان کی تاریخ اب بقیہ پاکستان میں دہرانے کی تیاری ہے ۔ اب پوری قوم کوآج پاکستان میں بھاگ امریکا بھاگ،بھاگ طالبان بھاگ ،بھاگ ملا بھاگ، بھاگ دہشت گرد بھاگ، بھاگ جاگیردار بھاگ کے نعروں کے ساتھ سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ سترہ کروڑ لوگوں کی آزادی حقیقی خطرے سے دوچار ہے۔اس مقصد کے لئے قوم کو منظم کرنے اورراستہ دکھانے کی ضرورت ہے۔

عوام کو کن مسائل میں الجھادیا گیاہے ۔ آج پاکستان میں گندم نہیں ہے اگر ہے تواس میں دانے نہیں ہیں کہ وہ افغانستان سمگل ہو جاتے ہیں اور ہم سب بھوکے مرتے ہیں۔ اگر دانے ہیں تو آٹا نہیں ہے اگر آٹا ہے تو روٹی نہیں ہے اگر روٹی ہے تو کھانے کو نہیں ملتی۔ کیونکہ کہ غریب کے حصے کی روٹی بھی پاکستان کا سرمایہ دار،جا گیر دار،وڈیرہ ، سردار، جرنیل ، ملااور بیوروکریٹ امریکی امداد کے ساتھ ملا کر کھا جاتا ہے۔ ان سب نے پاکستانی قومی خزانے سے لوٹ کر ساٹھ ارب ڈالر امریکی اور یورپی بنکوں میں جمع کر کھے ہیں۔اور اس ملک کے لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں۔اس ملک میں سب کچھ پیدا ہوتا ہے لیکن اس ملک کے لوگ سب کچھ سے محروم ہیں سوائے سامراجی ذہنیت رکھنے والی ایک مٹھی بھر حاکم اقلیت کے ۔

حکمرانوں یا امریکا کے خلاف یا اپنے حق کے لئے کوئی آواز بلند کرے تو اسے ملکی کی سالمیت کا دشمن اور غدار قرار د دے کرغائب کردیا جاتا ہے یا قتل کردیا جاتا ہے۔پاکستان مکمل طور پر امریکاکی ایک غلام ریاست ہے ۔یہ امریکی ہی ہیں جو وقتا فوقتا اپنے سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اس ملک میں جمہوریت کی بجائے بار بار آمریت لے آتے ہیں۔پاکستان میں کراچی سے خیب رتک پوری قوم کو یک زبان ہو کر ایک نعرہ لگانے کی ضرورت ہے۔بھاگ امریکا بھاگ۔پھر دیکھئے پاکستان میں استحصالی اور جاگیرداری نظام کیسے زمین بوس ہوتا ہے۔معجزے اسی دنیا میں ہوتے ہیں۔بھاگ امریکا بھاگ کے نعرے میں بڑی طاقت ہے۔امریکی جھنڈا چلانے کی ضروت نہیں جھنڈے بز دل جلاتے ہیں۔بہادر میدان میں کھڑے ہو کر للکارتے ہیں۔آزادی کے لئے قربانی دی جاتی ہے۔پھر وہی سڑکیں۔

بھارت :امریکا اور مغرب کا گھرداماد

بھارت مغرب اور امریکا کاگھر دامادہے ۔پاکستانی سٹیبلشمنٹ میں امریکی ایجنٹ موجود ہیں جو پاکستان کو امریکی اشارے پر مسلسل عدم استحکام سے دوچار رکھتے ہیں۔ ،جاگیردار،سردار،ملاااور سیاستدان سامراجی گماشے ہیں۔پاکستان امریکا اوربھارت کا غلام ہے،امریکی پاکستان کو دبا کر ڈنڈے کے زور پر اپنے گھر داماد بھارت کے جوتے چاٹنے پر مجبو ر کر تے ہیں۔اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ اس ملک کو امریکا کے در کا بھکاری بنا دیا گیا ہے،بھارت پا کستان کی آزادی اور خود مختاری کا دشمن نمبر ایک ہے ۔اور ہر وقت پاکستان کو ختم کرنے کی سازشیں کرتا رہتا ہے ۔بھارت سے پاکستان کے دو دریا واپس لیئے جائیں ۔اور کشمیر اس سے خالی کرایا جائے ۔پاکستان کو امریکا اور اس کے گھر داماد بھارت غلامی سے آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔ورنہ یہ باقی نہیں رہیگا۔

پاکستان کو بحرانوں کی سر زمین بنا یا گیا ہے

دنیاآگے جا رہی ہے جب کہ حکمران طبقات اس ملک کو واپس پتھر کے دور میں دھکیلنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔جاگیرداریوں، سرداریوں کو بچانے کے لئے نئے صوبے بنانے کا شور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اسی طبقے کا نیا ہتھیار ہے ۔ یہ اس ملک سے بجلی، پانی، گیس، پیٹرول، فیکٹریاں، کارخانے، سکول، ہسپتال،سڑکیں،باغات ، آٹا،چینی،روٹی ،کپڑا اور مکان چھین کر اس میں دہشت گرد طالبان اور ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں موت بانٹ رہے ہیں ۔پاکستان کے عوام کا قتل عام کر کے انہیں ڈرا رہے ہیں۔پاکستان بحرانوں اور طوفان کی زد میں ہیں۔قومی شناخت کا بحران،قومی زبان کا بحران، قومی ثقافت کا بحران،قومی سلامتی کا بحران،قومی یکجہتی کا بحران،قومی معیشت کا بحران، قومی منصوبہ بندی کا بحران تو ہے ہی ہے اوپر سے بجلی ،پانی،گیس پٹرول آٹے کا بحران،ایک سے بڑھ کر ایک ،بحران ہیں کہ بڑھ رہے ہیں۔مگر انہیں حل کرنے کا کوئی نام نہیں لیتا۔دوسری طرف رجعت پسندوں،دہشت گردوں، فاشسٹوں،پریشرگروپوں، وڈیروں، جاگیرداروں،سرداروں،چوہدریوں،خانوں کے ہاتھوں سارا پاکستان ساری قوم ہر غمال ہے۔ تبھی تو حبیب جالب نے کہا کہ :۔

ایسے دستور کو ،صبح بے نور کو
ظلم کی بات کو ،جہل کی رات کو
اس کھلے جھوٹ کو ،ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا ،میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں سے ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح کہوں
تم نہیں چارہ گر،کوئی مانے ،مگر
میں نہیں مانتا،میں نہیں مانتا۔

پاکستان ایک اجڑی ہوئی بستی۔۔کیا ایک ریاست ٹوٹنے کے لئے بے تاب ہے

کراچی سے خیبر تک یہ ملک کسی اجڑی ہوئی بستی کا منظر پیش کرتا ہے۔ہم نے اس ملک کو کیا بنا دیا ہے۔ہم نے سندھ کو کیا بنا دیا ہے۔ہم نے کراچی کو کیا بنا دیا ہے۔ ہم نے بلوچستان کو کیا بنا دیا ہے۔خیبر پختون خواہ کا کیا حال کردیا ہے،پنجاب کے ساتھ ہم کیسا گھنائونا کھیل رہے ہیں۔کراچی میں جسقدر نفرت،تعصب اور اسلحہ موجود ہے اگر خدانخواستہ یہاں نسلی و لسانی جنگ کی آگ بھڑک اٹھی تو یہ شہر چند لمحوں میں جل کر راکھ ہو جائیگا اور دشمنوں کی لاشوں پر فتح کا جشن منانے کے لئے کوئی بھی سورما اس شہر کا کوئی ایک بھی باسی زندہ نہیں بچے گا۔کیوں کی ہر لسانی گروہ کے پاس دوسرے لسانی گروہ کو مارنے کے لئے کافی اسلحہ موجود ہے ۔ پاکستان کیا ریاست بن چکا ۔یہ ریاست لوگوںکی عزت ،جان مال آپرو کو تحفظ دینے میں ناکام، صوبوں کو حقوق دینے میں ناکام، کیا یہ اپنے اوپر ناکام ریاست کالیپل لگو کر بیٹھی اپنے ٹوٹنے کا انتظار کر رہی ہے۔ کوئی تو نکلے جو ملک میں جمہوریت آزادی،بھائی چارے ،امن سکھ اور سکون اور ترقی کے لئے عملی کام کرے ایک نئے نظام اور ایک نئے سماج کی بنیاد ڈالنے اور منزل تک پہنچے کے لئے کوئی لائحہ عمل واضح کرے ۔عوام میں آئے۔انہیں اپنی آزادی ،امن اور اتحاد کا شعور دے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ عظیم تبدیلی لانے کے لئے کون سی ایسی قوتیں جو یہ تاریخی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اگر ہم انسانیت،امن،آزادی،جمہوریت اور انسانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ہم کسی مذہب، نسل، فرقے کے خلاف نہیں ہیں۔ تو پھر نا انصافی کے خلاف بولنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ ہم ڈائیلاگ، افہام و تفہیم، برداشت اور تحمل سے اپنے مسائل پر غور و فکر کرنے ان کا حل ڈھونڈنے پر ترجیح دینا ہوگی ۔ اگر سارے پاکستان کو جمہوری،ترقی یافتہ ملک او پرامن معا شرہ دیکھنا چاہتے ہیں۔اور اسے اپنے آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر وطن دیکھنا چاہتے ۔ہیں۔ تو ہم سب کو متحد ہو کر منظم ہو کر عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان بظاہر ایک ایسی ریاست دکھائی دیتا ہے جو ٹوٹنے کے لئے بیتاب ہے مگر ایسا نہیں ہے۔حقیقت کچھ اور ہے۔یہ زندہ رہنے کے لئے آخری حد تک جائیگی۔پاکستان کے دشمن شدید غلط فہمی کا شکار ہے۔

کیا ترقی پسند تحریک کوئی کردار ادا کر سکتی ہے

یہاں پاکستان میں ترقی پسند تحریک کا ذکر ضروری ہے ۔جمہوریت پسندی،عوام دوستی اور انسان دوستی ترقی پسند تحریک کا خاصہ ہے۔فاشزم،معاشی استحصال،پسماندگی،جہالت اور ہر طرح کی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا اس تحریک ا بنیادی فلسفہ ہے۔ترقی پسند تحریک نے طبقاتی شعور بڑھایا ہے اور طبقاتی کشمکش کو تیز کیا ہے۔سماجی امن،انسانی ترقی اور اجتماعی خوشحالی ترقی پسند فکر کی منزل مقصود ہے۔ ترقی پسند تحریک نے ہمیشہ آمریت کی مزاحمت کی۔جمہوریت اور حقوق کی حمائت کی۔ تحریک ہر دور میں مٖظلوموں، محروموں،مزدوروں،کسانوں، ہاریوں، طلباء، اساتذہ، وکلا ء اور خواتین کے حقوق کے لئے لڑتی رہی ہے۔آگے کیا کرے گی ہمیں دیکھنا ہوگا۔کیا یہ کبھی منظم ہو کر عوام کے حق کے لئے لڑ سکے گی ۔اس سوال کا جواب وقت دے گا۔

جب استحصالی طبقات مظلوموں کے ہاتھ باندھتے ہیں۔ان کی زبانیں بند کرتے ہیں۔ان پر کوڑے برساتے ہیں اور ان پر خود کش بمباروں سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ تو یہ سب کچھ ا سلئے کرتے ہیں کہ یہ تبدیلی نہیں چاہتے ۔کیوں کی یہ معاشرے میں تبدیلی کے عمل کے دشمن ہوتے ہیں۔ یہ اپنے اور اپنے سامراجی آقائوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ملک توڑنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔پاکستان کے عوام اس عوام دشمن حاکم ٹولے کے عزائم کو سمجھے کہ یہ عوام کو لڑائے بغیر اس ملک پر مسلط نہیں رہ سکتے ۔عوام بلوغت کا مظاہر ہ کریں اور آپس میں لڑنے کی بجائے متحد ہو کے اس اصل دشمن یعنی حاکم استحصالی ٹولے کا گھیرائو کریں۔

کیا پاکستان میں کوئی ایسی قوت ہے جو اپنے مقامی،علاقائی ،نسلی،فکری،ذہنی تضادات سے اوپر اٹھ کر پاکستان کے معروضی حالات یا Ground Realities کو سامنے رکھ کر پاکستان کے سماج کو بنیاد سے بدلنے کے لئے یا اسے از سر نو تشکیل دینے کے لئے بھرپور تیاری کے ساتھ میدان عمل میں اتر سکتی ہے۔یا پھر ہم سب سترہ کروڑ کے اس طاقتور اور بڑے پوٹینشل اوربڑے امکانات کے حامل ملک کو برباد ہوتا دیکھتے رہےں گے۔اس قوم کے حقوق جس سامراجی گماشتہ ٹولے نے غصب کر رکھے ہیں ۔وہ حق دینے سے انکاری ہے۔اس کی خبر لینا ہوگی۔ان سے دولت چھینک کر پاکستان کے غریبوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔ غریب کیوں مرے ۔پاکستان کیوں ٹوٹے جاگیرداریاں ٹوٹیں اور جاگیردار مریں۔

وقت آ گیا ہے کہ عوام دوست ،جمہویرت پسند اور ترقی پسند قوتیںخواب غفلت سے جاگےں۔اورایک نئی فکر اور سوچ کے ساتھ منظم ہو کر پورے پاکستان کی رہنائی کے لئے میدان عمل میں اتریں۔بے عملی سے کچھ کام نہیں چلے گا۔

As the Dawn once editorially commented:

"The charge that the leftest spent more time in wooly-headed arguments in coffee houses than in serious discussion on organisation and policy goals was not not entirly without subsatnce.All political parties suffered under decades of militrary rule,the left suffered more,because of its basic lack of organisation and inability to mobalise committed cadres.The main stream parties have been so trapped in the power game that many problems that effect the lives of ordinary people have been ignored.There's space for a braod front of enlightened,committed and social activists.....The public response might surprise everyone".

یہ ہمار املک ہے۔ اسے سامراجی غلامی سے آزادی کرانا ہمارا فرض ہے ۔ ہم سب اسے چند مٹھی بھر بدمعاشوں،غنڈوں ،دہشت گردوں، مذہبی جنونیوں،طالبانیوں،نسل پرستوں،علیحدگی پسندوں، ترقی کے دشمنوں، سامراجی گماشتوں،جاگیرداروں اور سرداروں کے حوالے کر کے خود یر غمالی بن کے پیچھے ہٹ کر کیوں بیٹھ گئے ہیں۔حوصلہ کیوں ہار بیٹھے ہیں۔میرے ناول’’ دریا برد‘‘ کا ہیرو شائیگان ہر وقت اپنی زبان سے ایک ہی بات کا ورد کرتا رہتا ہے کہ
’’حوصلہ وی کوئی ہارن دے شے ہوندا اے ‘‘ ۔

ہم سب کو اٹھ کر پاکستان کو ری کلیم کرنا پڑیگا۔
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریبان کا جالب          چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

پاکستان میں انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگ سکتا ہے اور کامیاب ہو سکتا ہے،اب حالات بہتر ہیں دنیا بدل چکی ہے۔فضا بڑی تبدیلی کے حق میں جس کا مطلب ہے عوام کے حق میں ہے۔ تبدیلی کی قوتوں کے حق میں ہے ۔جاگیرداری کے ادارے پر حملہ کئے بغیر اسے تہس نہس کئے بغیر پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں لائی جا سکتی۔وقت کم ہے رجعت پسندوں،عوام دشمنوں، جاگیرداروں، سرداروں اور سامراجی گماشتوں کے رحم کروم پر پاکستان کو مزیدا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ ہمار املک ہے۔ جسے مٹھی بھر بدمعاش طبقات نے ہم سے چھین کر ہم سب کو اپنا غلام بنا رکھا ہے،اس عوام دشمن طبقے کو سامراج کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ ہم نے اپنا وطن اپنے دشمنوں سے واپس چھین کر اپنی نئی نسل کی گود میں ڈالنا ہے۔پاکستان ہم سب کی وراثت ہے۔ عوام کی بھلائی، انسانیت، جمہوریت، سماجی انصاف ، معاشی مساوات کے حصول اور ظلم اور نا انصافی کے خاتمہ کے لئے بغاوت کئے بغیر اس ملک میں ہم میں سے کسی کے لئے بھی زندہ رہنا ممکن نہیں۔

اگر ہم پاکستان کی تاریخ کو بغور جائزہ لیں تو ہمیں ایک حقیقت سے بار بار واسطہ پڑتا ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ استحصالی طبقات نے سامراجی اشارے پر پاکستان میں تبدیلی کی راہ میں ہمشیہ مسائل کھڑے کئے ہیں۔ پاکستان کو ہمیشہ عدم استحکام کا شکار بنا کر رکھا ہے۔ جمہورت کی راہ میں ہمیشہ روڑے اٹکائے ہیں ۔پاکستان میں سامراجی آشیرواد سے جاگیرداری،وڈیرہ شاہی اور سرداری کو تحفظ دیا گیا ہے۔

مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ہے ،تعلیمی میدان میں اسے ہمیشہ پسماندہ رکھا گیا ہے۔یہاں نسلی ولسانی مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں فروغ دیا گیا ہے ۔جمہوریت کا گلا آمریت کی چھری سے کاٹا گیا ہے ۔ جلتی پر ہمیشہ تیل ڈالا گیا ہے۔ اس ملک اور قوم کو ہمیشہ انٹیگریشن کی راہ پر چلنے سے روکا گیا ہے۔ جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے ہمیشہ عوام دشمن پالیسیاں اختیار کی ہیں۔ملک کا حکمران طبقہ خواہ وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری امریکی مفادات کا علمبردار اور سٹیٹس کو کا محافظ ہے ۔یہ عوام دشمنی نہیں تو کیا ہے بھلا ایک ہاری یا کسان کا نمائندہ کوئی وڈیرہ یا جاگیردار اور کسی مزدور کا نمائندہ کوئی سرمایہ دار یا ملا کیسے ہوسکتا ؟ ہمیشہ اس خطے میں کوئی بڑی واردات کرنے سے پہلے سامراجی طاقتیں یہاں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔کوئی خفیہ ہاتھ جس کی شناخت پاکستانی ہے پاکستان میں ایسا سرگرم عمل ہے جو اس ملک کو مسلسل بحرانوں اور نہ ختم ہونیوالے عدم استحکام سے دوچار رکھنے میں انتہائی یکسوئی سے سرگرم عمل ہے۔مگر کوئی اس طرف دھیان دینے کو تیا رنہیں۔

پاکستان کی ریاست کو جنوئین جمہوری بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ استحصالی ٹولے نے سامراجی طاقت کے ساتھ مل کر پاکستان کو تماشا بنا رکھا ہے۔نوکر شاہی اورجاگیردار ملک کو چلانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔پاکستان ناکام ریاست ریاست نہیں ہے۔ اس کو چلانے والی سٹیبلمنٹ ،جاگیرداروں پر مشتمل سیاسی پارٹیاں نوکر شاہی ،جاگیردار سب ناکام ہو چکے ہیں۔ ان کے رویئے عوام دشمن اور ان کے مفادات سامراجی مفادات کے ساتھ وابستہ ہیں۔پاکستانی قوم ناکا م نہیں ہوئی ۔سامراجی مفادات کا راکھا پاکستانی حاکم طقبہ ناکام ہوا ہے۔مسئلہ پاکستان نہیں ،مسئلہ سندھ نہیں ہے ۔مسئلہ بلوچستان نہیں ہے مسئلہ پاکستان پر مسلط عوام دشمن طبقات ہیں جو عوام کو اقتدار منتقل کرنے پر تیا رنہیں ،انصاف کرنے پر تیار نہیں۔لوٹ مار بند کرنے پر تیار نہیں۔خواہ پاکستان ٹوٹ ہی کیوں نہ جائے۔

پاکستان کو چھوڑ کردنیا بھر کی ریاستیں ویلفئیر سٹیٹ کی منزل کی طرف گامزن ہیں کیوں کہ وہ اپنا وجود اور اپنے عوام کی آزادی برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔اس لئے اپنے عوام کر ریلیف دے رہی ہیں اور ان کی دکھوں ،مصیبتوں کو کم کر کے بتدریج ختم کرنے کے فارمولے پر انتہائی سنجیدگی سے عمل پیرا ہیں۔معروضی حالات میں صرف سوشلسٹ انقلاب ہی پاکستان کے تمام اندرونی مسائل،تنازعات اور بحرانوں کا حل ہے۔

اصل سیکورٹی تھریٹ

جو ظلم اور اندھیر نگری پاکستان میں مچی ہے وہ دنیا کی کسی بھی ریاست میں نہیں ہو رہی سٹیبلشمنٹ اب بجائے خود پاکستان کے لئے سیکورٹی رسک بن چکی ہے۔سیکورٹی رسک اس لئے کہ اس کی پالیسیاں قومی اور ملکی مفاد سے متصادم ہیں۔ بلوچستان میں بغاوت کی سی صورتحال، پاکستان کی بلکانئزیشن ، جاگیرداری اور سرداری بچانے کے لئے نئے صوبوں کے قیام کے دوران ملک میں خانہ جنگی کروا کر اسے ختم کرنے کی تیاریاں،ملک میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کے آگے اس سٹیبلشمنٹ اور ہر حکومت کی رضا مندی ،ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بجائے ہمیشہ قرضوں پر چلانے کی پالیسی ،ملک میں نسلی و لسانی تضادات کو حل کرنے کی بجائے انہیں ہوا دینے کی پالیسی اورعلیحد گی کی تحریکیں ایسے مسائل ہیں جو اس سٹیبلشمنٹ قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ان مسائل کے حل میں ناکامی ہی ملک کے لئے اصل سیکورٹی تھریٹ ہے۔اگر یہ صورتحال بدلتی نہیں ہے تو دو امکانات واضح طور پر دکھائے دے رہے ہیں۔پہلا یہ کہ پاکستان خانہ جنگی اور سامراجی سازشوں کی وجہ سے ٹوٹنے ولا ہے اور سترہ کروڑ کی آبادی پھر کسی کی غلامی میں جانے والی ہے۔ دوسرا امکان خونی ا نقلاب کا ہے ۔ ملک کا ماضی دیکھ کر اس کے مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ سٹیلشمنٹ اس ملک کو ہمیشہ اسی طرح چلانا چاہتی ہے ۔اور سٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتی جو عوام کو قبول نہیں۔ اس لئے اب خونی انقلاب ناگزیر ہوچکا ۔مکمل صوبائی خود مختاری دئے بغیر سماجی انصاف اور معاشی مساوات دیئے بغیر،جاگیردار،سردار اور ملا کو ختم کئے بغیر پاکستان کا وجود قائم رکھناممکن نہیں۔

پاکستا ن کے ادیب اور دانشور آگے بڑھیں

اس موقع پر پاکستان کے ادیبوں،دانشوروں،شاعروں کوآگے برھ کر قومی کردار ادار کرنے کی ضرورت ہے۔اس لئے اس ملک پر مسلط جاہلوں کے ٹولے سے قوم کو آزاد کرانے کی ضرورت ہے ۔میراا یمان ہے کہ
’’ ادب انسانیت اور سماج کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے،اپنے سماج کو جاننے کے لئے ہر سچے ادیب کو اپنے لوگوں کے ساتھ دل و دماغ اور روح کا پر خلوص اور سچا ر رشتہ استوار کرنا پڑتا ہے ۔سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا،سننا،بولنا ،ماننا اور لکھنا پڑتا ہے۔اپنے معاشرے ،اپنے سماج اور اپنے لوگوں کے دکھ سکھ،خوشی غم کوسانجھا کرنا پڑتا ہے۔اپنے لوگوں ،اپنی دھرتی اوراپنے سماج کے ساتھ مرنا جینا پڑتا ہے، سچے اوربڑے ادیب کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا۔ جو ادیب اپنے سماج ،اپنے معاشرے ،اپنے لوگوں اپنے ارد گرد کے ماحول میں جاری ظلم،نا انصافیوں، استحصال،جبر،تشدد،نا انصافی ،جاگیردارنہ ذہنیت ،تعصبات اوردہشت گردی کے خلاف اپنے قلم اوراپنے فکرو عمل سے جہاد نہیں کرتا اسے قلم اپنے ہاتھ سے رکھ کر دہشت گردوں میں شامل ہو جانا جانا چاہئے۔ادیب کے ہاتھ میں قلم عوام کی امانت ہوتا ہے ۔اور اسے عوام ہی کے لئے ایمانداری سے استمال ہونا چاہئے۔کہ ایک روشن خیال اور سچے ادیب کے ہاتھوں سے تخلیق ہونے والے ادب میں قوموں کی تقدیر بدلنے کی قوت اور صلاحیت موجود ہوتی ہے‘‘۔
گل تیرے دل میں کھلیں اور مہک جائوں میں       اسی رشتے میں ہر ایک انسان کو پرونا چاہوں میں

تبدیلی کے لئے ،انقلاب کے لئے ایک نکاتی پروگرام

وقت آ گیا ہے کہ کراچی سے خیبر تک عوام کوایک نکاتی پروگرام’’ ترقی ، امن، انصاف، مساوات، خوشحالی، خوشی ،زندگی ،آزادی اور ملکی سلامتی کے لئے اس عوام دشمن، ملک دشمن ،ظالمانہ،غیر انسانی اور غیر جمہوری نظام کو کچل دو ‘‘ پر منظم کیا جائے ۔ اور سڑکوں پر لایا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو سامراجی غلامی اور سازشوں کے شکنجے، جاگیرداری، وڈیرہ شاہی ،سرداری اور ہر طرح کی دہشت گردی ،غلامی اور آمریت کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لئے منصوبہ بندی کی جائے ۔ ملک میں جمہوریت آزادی،بھائی چارے ،امن سکھ ، سکون اور ترقی کے لئے کام کیا جائے ۔ترقی ،جمہوریت ،قومی سلامتی اور امن کی راہ پر جانی والی راہیں کھولی جائیں ۔ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر سازشوں کی بارودی سرنگیں بچھانے والوں ،سازشیوں اور سامراجی گماشتوں کا پیچھا سمندر پار تک کیا جائے ۔پاکستان کی جو دولت یہ چرا کر سات سمندر پار لے گئے ہیں اسے واپس لایا جائے ۔پاکستانیوں کو آپس میں لڑنے مرنے اور ملک کو ٹوٹنے سے بچایا جائے ۔اور ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے، نئے نظام اور ایک نئے سماج کی بنیاد ڈالنے اور منزل تک پہنچے کے لئے لائحہ عمل واضح کیا جائے ۔ہم سب کو مل جل کر اس ملک کے سترہ کروڑ عوام کی آّزادی،خود مختاری اور سلامتی کے لئے اپنے ڈرائینگ روموں، بیٹھکوں، ڈیروں، گھروں، گلیوں، بازاروں، دیہاتوں،قصبوں اور شہروں سے باہر نکل کر عوام سڑکوں پر آنا ہوگا۔

ہمیں ، ہم سب کو آج یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان ایک ٹوٹتا بکھرتا خواب کیوں بن چکا ہے ۔ ہمیں اس کو ٹوٹنے بکھرنے سے بچانا ہوگا۔ورنہ ہماری آنے والی نسلیں غلام ہوں گی۔خدا نہ کرے کبھی ایسا ہو۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد آزاد ہو جائیں گے وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔کہ پاکستان توڑنے کے عمل میں مصروف سامراجی قوت اور اس کے گماشتوں نے کچھ ایسا ہی انتظام کیا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد ایک خوفناک اور کبھی نہ ختم ہونے والی غلامی کی سیاہ رات اپنے خونی اور لمبے ہاتھ پھیلائے ہم سب کی منتظر ہے ۔

انتظام یہی کیا گیا ہے۔خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو۔اور اس سے پہلے کہ ایسا ہو ہم سب کو چاہئے کہ ہم ہوش میں آ جائیں۔ اور ہوش میں آ کر ہم کیا کریں۔ وہی وہ جو وقت کی پکار ہے۔وہی جو ہمیں کرنا ہے کہ:۔
وقت آ گیا ہے کہ کراچی سے خیبر تک عوام کوایک نکاتی پروگرام’’ ترقی ، امن، انصاف، مساوات خوشحالی، خوشی ،زندگی ،آزادی اور ملکی سلامتی کے لئے اس عوام دشمن، ملک دشمن ، ظالمانہ، غیر انسانی اور غیر جمہوری نظام کو کچل دو ‘‘ پر منظم کیا جائے ۔ اور سڑکوں پر لایا جائے۔اور ہم سب بیک زبان ہو کر اپنے اندرونی اور بیرون دشمنوں کو یہ پیغام پہنچائیں کہ پاکستان کہیں نہیں جا رہا یہیں رہے گا۔ صف دشمناں کو خبر کروکہ پاکستان کوئی ٹوٹتا بکھرتا خواب نہیں۔ بلکہ ہمارے خوابوں کی تعبیر ہے ۔دشمن ناکام ہو گا ۔لو آج ہم امن وخوشحالی، حق و انصاف،امید اور انقلاب کا پرچم بلند کرتے ہیں۔سن اے دشمن کہ ہم جینا چاہتے ہیں اور ٹوٹنے، بکھرنے، مٹنے اور تیری غلامی میں جانے سے انکار کرتے ہیں۔

چند دن کی بات ہے دوستو۔ازندگی کے کچھ دن سڑکوں پر ہی سہی ۔یک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالو۔سیسہ پلائی دیوار بنو۔سڑکوں پر نکلو۔اور کچل ڈالو اس ظالمانہ،غیر انسانی اورلوٹ مار کے جاگیردارانہ اور خونخوار قبائلی نظام کو۔یہ پتھر دوکی علامت ہے اسے واپس پتھر دور میں دھکیل دو۔یہ ہماری آزادی،خوشحالی ،امن ہمارے دیس کے وجود اور ہمارے بچوں کے محفوظ مستقبل کا دشمن ہے اسے موت دے دو۔ بہت ہو چکی ۔بس اب جان چھڑائو اس سے ۔

حکمران طبقات عوام کے حق میں اقتدار سے دست بردا ہونے یا اقتدار عوام کو منتقل کرنے پر کسی صور ت تیار نہیں ۔اب ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا وقت آ پہنچا ہے ۔ ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔یہ بزدل ہیں۔کوئی بھی نئی عوامی تحریک جو منظم ہو کر جو سٹیٹس کو جاگیرداری کو چیلنج کرسکے۔سڑکوں پر آ کرچند دن میں ان کا بیڑا غرق کردے گی۔پاکستان کو بچانے کے لئے عوام کو بغاوت کرنا ہوگی ۔ مذہبی جنونیت،ملا کے خود ساختہ اور مسلط کردہ اسلام،دہشت گردوں،جاگیرداروں،سرداروں ،وڈیروں اور پیروں کی غلامی سے آزادی ہی پاکستان کو بچا سکتی ہے ۔لوہا گرم ہے ۔بس ضرب لگانے کی دیر ہے ساتھیو

اٹھو میری  دنیا کے غریبوں کو جگا دو        کا خِ امرا کے درو دیوار ہلا دو
جس کھیت سے میسر نہ ہو دہقان کو روزی        اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

 

 

 

Back to Top

 

Punjabics is a literary, non-profit and non-political, non-affiliated organization funded from individual membership and contribution

Punjabics.com 2010 All Rights Reserved      Website Design & SEO by The Best SEO Company Pakistan